( غیــر مطبــوعــہ ) لیکن اکثر یوں ہوتا ہے کبھی…
لیکن اکثر یوں ہوتا ہے
کبھی کبھی تو پہلا درد بھی لَوٹ آتا ہے
کبھی کبھی تنہائی خود کو….
دہرانے پر راضی بھی ہو جاتی ہے
لیکن اکثر یوں ہوتا ہے..
جیون کی مغموم کتھا میں..
کھوئی ہوئی چوپال کی شمعیں…
جلتے جلتے تھک جاتی ہیں….
ایک نیا دن آتے آتے رک جاتا ہے..
راکھ ملی شب کے انگیارے بجھتے بجھتے جل اٹھتے ہیں…
تم آؤ تو تمھیں دکھاؤں…
ذرّہ ذرّہ گرنے والے ان قرنوں کا مٹّی سے کیا رشتہ ہے… خوابوں کی سیلن سے نمو پانے کی خواہش کتنی منہگی پڑتی ہے…
وقت سے پہلے ڈھلنے والے ان سایوں کو حسرت سے تکنا پڑتا یے
دل پر پڑتے قدموں کی ان آوازوں سے دیر تلک ڈرنا پڑتا ہے…..
( ارشِــــدؔ نعیــــم )