( غیــر مطبــوعــہ ) کبھی بہاروں کے موسمِوں میں ‘…
کبھی بہاروں کے موسمِوں میں ‘ جو دل کی بستی غزل سرا تھی
وہیں کہیں ایک آرزو کے مچلنے کی بھی بڑی کتھــا تھی
جلا کے جب ساری کشتیاں میں سمُندروں کی بنی غداؑ تھی
اُسی گھڑی تو جبینِ شب پر لکھی گئی میری بھی دعا تھی
محبّتیں بھی، رفاقتیں بھی ، عداوتیں اور ندامتیں بھی
مِرا اثاثہ میں جانتی تھی ‘ کہاں وفا تھی’ کہاں جفا تھی
وراثتوں کی کتاب کھولی ‘ تو نام میرا کہیں نہیں تھا
میں چپ تھی سوچا کہ اس میں شاید’ مِرے قبیلے کی بھی رضا تھی
جنون ۔۔۔ مستی سوار تھی ‘ وہ نگاہ بھی بے قرار تھی کچھ
مِرے قدم رک گئے کہ میں جانتی تھی بڑھنا مِری خطا تھی
جلے گا دل تو دھواؑں اٹھے گا، یہ آگ ایسے نہیں بجھے گی
نگر نگر یہ خبر پہنچتی ، مگر ہَوا کی عجب دِشا تھی
بہت پکارا تھا منزلوں نے حنا مجھے ان ہی راستوں سے
مگر مسلسل سفر تھا میرا، کہیں نہ رُکنے میں ہی بقا تھی
( حِــناؔ اَمبرین طــارق )