غزل سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے تھے سینکڑ…
سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے
تھے سینکڑوں ہی نالے وابستہ ایک دَم سے
واقف نہ یاں کسو سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے
یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے
مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی
میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے
گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے
سب تُم سے ہو سکے ہے، مُمکن نہیں تو ہم سے
مُشتاق گر تِرا کُچھ، لِکھے تو کیا عجب ہے
ہوں مثلِ نرگس آنکھیں پیدا ابھی قلم سے
ہر چند، یہ تمنّا درخور نہیں ہمارے
نزدیک تُو جو آوے کیا دُور ہے کَرَم سے
اب ہیں کہاں وہ نالے، سرگشتگی کِدھر ہے؟
تھیں سب یہ باتیں ثابت، میرے ہی دَم قدم سے
ہے اِک نِگاہ کافی، گو ہووے گاہ گاہے
چنداں نہیں ہے مطلب، عاشِق کو بَیش و کم سے
کاہے کو ہوتی تم کو گردش نصیب طالع
گر پاؤں اپنا باہر رکھتے نہ ہم عَدم سے
آتے ہیں دام میں کب خورشِید رُو کسو کے
اے شیخ! یہ نہیں ہیں تسبیح کے سے شمسے
ہے دردؔ پر بھی کُچھ تو میری ہی سی مُصِیبت !
گھیرے ہے اور ہی غم، چُھوٹے جو ایک غم سے
(خواجہ مِیر درؔد)
[ad_2]