(غیر مطبوعہ ) آؤ ‘ کچھ ایسا کریں ‘ چھانو بچھانے …
آؤ ‘ کچھ ایسا کریں ‘ چھانو بچھانے لگ جائیں
ہر گلی کوچے سے اب دھوپ ہٹانے لگ جائیں
سوکھے پیڑوں کو نئی ٹہنیاں تقسیم کریں
دشت و صحرا میں ہری گھاس اگانے لگ جائیں
چاند کو ٹانگیں سیہ رات کی پیشانی پر
تیرہ راہوں کو اجالوں سے سجانے لگ جائیں
کبھی پلکوں سے چھلکتے ہوئے آنسو پوچھیں
کبھی ہونٹوں پہ اُگی پیاس بجھانے لگ جائیں
قافلہ منزلِ مقصود کو کیسے پہنچے ؟
راہ گُم کردہ اگر راہ بتانے لگ جائیں
مصلحت ایسی ہو’ تھوڑی سی انا بھی جھلکے
نرم اِتنے نہ بنیں ‘ لوگ جھکانے لگ جائیں
دل کے رستے ہی سے پہنچے ہیں تمہارے در تک
ورنہ اِس در پہ پہُنچنے میں زمانے لگ جائیں
اور تنہائی میں کیا کام ہے ‘ اِس سے بہتر
تجھ کو سوچیں ‘ تری تصویر بنانے لگ جائیں
کیسے جی پائیں گے ہم ‘ اُس سے جدا ہو کے خُمارؔ !
وہ نہیں ہے’ تو چلو ہم بھی ٹھکانے لگ جائیں
( سلیمان خمارؔ )