داغؔ دہلوی طَور بے طَور ہُوئے جاتے ہیں وہ تو کچھ…
طَور بے طَور ہُوئے جاتے ہیں
وہ تو کچھ اور ہُوئے جاتے ہیں
یہ عنایت پہ عنایت ہے ستم
لطف بھی جَور ہُوئے جاتے ہیں
اب تو بیمارِ محبّت تیرے !
قابلِ غور ہُوئے جاتے ہیں
نشہ ہوتا ہی نہیں، اے ساقی !
بے مزہ دَور ہُوئے جاتے ہیں
دیر ہے حکم کی، ہم تم پہ فدا
ابھی فی الفور ہُوئے جاتے ہیں
اِلتجا بھی ہے شکایت گویا
وہ خفا اور ہُوئے جاتے ہیں
اِنتہا کیا ہے کہ تجھ سے برپا
جَور پر جَور ہُوئے جاتے ہیں
اہلِ کلکتہ سے لائق فائق
اہلِ لاہور ہُوئے جاتے ہیں
گھڑیوں بڑھتا ہے حسینوں کا جمال
اور سے اور ہُوئے جاتے ہیں
تیر پھینکو نہ فلک پر کہ شکار
اسد و ثور ہُوئے جاتے ہیں
کچھ خبر بھی ہے محبّت میں، اے داغؔ !
کیا ترے طَور ہُوئے جاتے ہیں
اُستاد داغؔ دہلوی