جاں نثار اختر ۔ رہی ہیں داد طلب اُن کی شوخیاں ہم س…
۔
رہی ہیں داد طلب اُن کی شوخیاں ہم سے
اَدا شناس بہت ہیں، مگر کہاں ہم سے
سُنا دیئے تھے کبھی کچھ غلط سلط قصّے
وہ آج تک ہیں اُسی طرح بدگماں ہم سے
یہ کُنج کیوں نہ زیارت کدہ محبّت ہو !
ملے تھے وہ اِنھیں پیڑوں کے درمیاں ہم سے
ہمی کو فرصتِ نظّارَگی نہیں ، ورنہ
اِشارے آج بھی کرتی ہیں کھڑکیاں ہم سے
ہر ایک رات نشے میں ترے بدن کا خیال
نہ جانے ٹوُٹ گئیں کَے صراحیاں ہم سے
نہ لفظ ہے ، نہ کنایہ ، نہ صورت اِک، نہ صدا
سکوتِ شب کی نہ پُوچھے کوئی زباں ہم سے
ہماری قدر کرو، اے سُخن کے متوالو !
غزل کو کل نہ ملیں گے مزاج داں ہم سے
۔
جاں نثار اختر