الیاس اس قریے میں آخری آدمی تھا۔۔ اُس نے عہد کیا ت…
(آخری آدمی از انتظار حسین )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ممتاز ادیب ، کالم نگار انتظار حسین کی برسی ہے ۔
انتظار حسین 7 دسمبر 1923 ڈبائ میرٹھ انڈیا میں پیدا ہوئے ۔۔ ان کے والد ان کو مذہبی اسکالر بنانا چاہتے تھے ۔۔ انتظار حسین ہجرت کے بعد لاہور میں مقیم ہوئے جبکہ ان کی بہنوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی ۔۔۔۔
انتظار حسین نے اپنے افسانے کی عمارت ہندی دیومالا ، عربی داستان گوئی اور یورپی حقیقت نگاری پر رکھی ۔۔۔ بنیادی طور پر وہ علامتی افسانہ نگار ہیں ۔ ان کا فن عام لوگوں کے لئے نہیں ہے ۔ ان کے افسانوں کے اساطیری اسرار سمجھنے کے لئے قاری کا وسیع المطالعہ اور ادبی تربیت یافتہ ذہن کا ہونا ضروری ہے ۔۔۔وہ باطن میں غوطہ زن کہانیاں لکھتے تھے ۔ ان کی کہانیوں میں ہجرت کا کرب و ذکر پوری شدت سے ملتا ہے ۔۔۔
انتظار حسین کی کہانیاں ماضی کی بازگشت ہیں ۔ وہ قاری کو گھما پھرا کر اپنے آبائی شہر میرٹھ ضرور لے جاتے ہیں ۔
انتظار حسین آخری آدمی تھے جیسی زبان وہ لکھ گئے ویسی زبان دوسرا کوئی نہیں لکھ سکتا ۔۔۔
انتظار حسین کے افسانوں کو پڑھ کر ایسی کشش محسوس ہوتی ہے جو چاندنی راتوں میں پرانی عمارتوں میں محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ ان کے افسانوں میں ایک عجیب طرح کا سوز اور حسن ہے ۔۔۔۔۔۔
انتظار حسین ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے وہ 1948 میں لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ نظام کے ایڈیٹر رہے یہ پہلے بمبئی سے شائع ہوتا تھا اور ترقی پسند تحریک کا ترجمان تھا ۔۔۔۔۔۔ لیکن بعد میں انتظار حسین ترقی پسند تحریک سے علیحدہ ہوگئے کیونکہ بقول انتظار حسین ترقی پسندوں کے یہاں انسان کے ماضی اور باطنی واردات کے اظہار پر پابندیاں تھیں ۔۔
انتظار حسین ، روحانی بالیدگی کے لئے جدید مادی ترقی کے فلسفے سے انکار کر دیتے ہیں ، وہ انسان کا فطرت سے رشتہ کٹ جانے پر واویلا کرتے ہیں ۔۔۔
بقول گوپی چند نارنگ ۔۔ انتظار حسین کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے بقائے انسانی سے متعلق سامری ، بابلی ، سامی، اسلامی اور ہندوستانی تمام مذہبی اور اساطیری روایتوں کا جوہر تخلیقی طور پر کشید کیا ہے ۔۔
انتظار حسین نے سفرنامے اور بچوں کا ادب بھی لکھا ۔۔۔۔
انتظار حسین کے افسانوں میں ایک پر اسرار شخص نظر آتا ہے ، جو کبھی ظاہر ہوتا ہے اور کبھی غائب ۔۔۔
انتظار حسین کی شخصیت میں انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔۔۔
۔۔۔
سادہ طبیعت آدمی تھے ۔ ہر جینیئس کی طرح بچوں کی طرح معصومیت سے باتیں کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے ۔۔
انتظار حسین ایک ایسے انسان تھے ، جس میں ایک مخصوص تہذیب کی صدیاں زندہ تھیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتظار حسین کی تحریر سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے جس سے ان کے افسانے کے کلاسیکی برانڈ کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ایک وقت تھا کہ ہم اپنی ذات میں کرہ ارض تھے ۔۔ دریا ، درخت ، چڑیاں ، چاند ، سورج ، تارے اور آسمان سب ہی ہماری ذات کا حصہ تھے ، وہ ہم سے تھے ، ہم ان سے تھے ، پھر نہ جانے کس کے دماغ میں سمائی کہ پہیہ ایجاد کر ڈالا ۔۔۔ وہ پہلی رات تھی کہ تاروں نے ہمیں راستہ دکھانے سے انکار کر دیا ۔ درختوں اور دریاؤں سے دوستی ختم ہو گئی ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ، فطرت سے توسل ہمیں کبھی نہیں ہو سکا ۔۔۔۔۔۔
2 فروری 2016 کو انتظار حسین کا انتظار ختم ہوا ۔۔۔۔۔
ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
بشکریہ
الیاس اس قریے میں آخری آدمی تھا۔۔ اُس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی …
Posted by Asif Jilani on Thursday, February 1, 2018