حکايت از گلستانِ سعدی ایک شخص نے ایک ایسے دوست …
ایک شخص نے ایک ایسے دوست کو جس کو عرصہ سے نہیں دیکھا تھا کہا تو کہاں تھا میں عرصہ سے تیرا مشتاق تھا۔ اس دوست نے کہا مشتاقی (آرزو مند رہنا) بہتر ہے اکتا جانے سے،
مثنوی:
دیر آمدی اے بگارِ سرمست
زودت ندہیم دامن از دست
معشوقہ کہ دیر دیر بیند
آخر بہ ازانکہ سیر بیند
اے مست (مخمور) محبوب تو دیر سے آیا میں جلد تیرا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑوں گا۔ معشوق کہ اس کو دیر دیر سے دیکھنا یعنی کبھی کبھی دیکھنا یہ بات اس سے بہتر ہے کہ جی بھر کر دیکھنا اور اس سے طبیعت اکتا جاۓ۔
لطیفہ:
معشوق اگر اپنے دوستوں (رقیبوں) کے ساتھ آۓ تو ظلم کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس وجہ سے کہ اس کا یہ آنا غیرت اور تکلیف سے عاشق کے لیے خالی نہ ہوگا۔
بیت:
اِذَا جِئَتَنِی فی رٌفقَةٍ لِتَزٌورَنِی
وَاِن جِئتَ فِی صٌلحٍ فَاَنتَ مٌحَارِبٌٗ
جب تو اپنے دوستوں (رقیبوں) کے ساتھ مجھ سے ملنے کے لیے آۓ اگر صلح کے لۓ بھی آیا ہے تو بھی مجھ سے لڑلے والا ہے۔
قطعہ:
بیک نفس کہ در آمیخت یار با اغیار
بسے نماند کہ غیرت وجودِ من بکشد
بخندہ گفت کہ من شمع جمعم اے سعدی
مرا ازاں چہ کہ پروانہ خویشتن بکشد
اگر ایک لمحہ کے لئے بھی میرا معشوق غیروں سے ملا تو زیادہ دن نہ گزریں گے کہ غیرت میرے وجود کو مٹا دے گی۔ اس محبوب نے ہنس کر کہا اے سعدی میں محفل کی شمع ہوں مجھے اس سے کیا پروا کہ پروانہ اپنے آپ کو ہلاک کر دے۔
فائدہ:
عاشق کو محبوب کا ذیادہ پیچھا نہیں کرنا چاہیے اور نہ زیادہ روک ٹوک کرنی چاہیے اس لئے کہ محبوب شمعِ محفل کے مشابہ ہے شمع کو اس کی پروا نہیں ہوتی کہ کوئی پروانہ جل جاۓ گا۔ جل جاۓ اس کی بلا سے اسے تو اپنے گرد پروانوں کی بھیڑ چاہیے۔
شیخ سعدی شیرازیؒ
المرسل: محمد بنیامین کیلانی
بشکریہ
حکايت از گلستانِ سعدی ایک شخص نے ایک ایسے دوست کو جس کو عرصہ سے نہیں دیکھا تھا کہا تو کہاں تھا میں عرصہ سے تیرا مشتاق…
Posted by محمد بنیامین کیلانی on Wednesday, January 31, 2018