مابین بچپن تاپا خوف کی گرم دو پہروں میں رات گزار…
بچپن تاپا
خوف کی گرم دو پہروں میں
رات گزاری
لمبے کَھنبے شہروں میں
بچّوں کی آنکھوں میں اُترے شکتی لی
خاکی پنجرہ خاک سے لِیــپا
بھید چُنے
سرگوشی کی
ہم جمع ہُوئے / تفریق ہُوئے
ضربیں کھائیں اور
کھڑے کھڑے تقسیم ہوئے
رَلا مِلا سنگیت اٹھایا !
کہیں کہیں شُدھ جائیں رکّھیں
اندر اندر جوڑ لگائے
گَردا گرد زمانوں میں
اک اک گوشہ روشن رکّھا
چھوٹے بڑے مکانوں میں
وعدوں کی مُٹّھی سے نکلے
خواب اور جگنو سینت کے رکّھے
حرف کو حرف سے ســینا تھا
اپنی اپنی کرنی تھی
اپنا حِصّہ جیــنا تھا
( فــــرّخ یارؔ )