( غیــر مطبــوعــہ ) اِس روانی میں کہاں تک ہے بہا…
اِس روانی میں کہاں تک ہے بہاو میرا !
سامنے میرے کنارہ بھی تو لاؤ میرا
میری یخ بستگی ظاہر نہ شرارہ کوئی
کبھی بجھتا ‘کبھی جلتا ہے الاو میرا !
اپنی دل چسپ کہانی میں نئے موڑ کے بعد
واقعہ پہلی ہی فرصت میں سناؤ میرا
نہ رہے قید عقائد کی مِرے بعد کوئی
جسم جس آگ میں جلتا ھے جلآؤ میرا
اک خریدار کی نظروں میں ہے قیمت میری
ترے بازار سے باہر بھی ہے بہاو میرا !
میرے آلام کی گٹھڑی ہے مِرے سَر پہ سوار
باقی سامان جو بچتا ہے اٹھاؤ میرا
اک مسافت سے بھی آگے ہے مسافت میرے
ایک صحرا سے بھی باہر ہے پڑاق میرا !
میں ثمربار ہمیشہ سے ہوں دنیا کے لئے
اپنی جانب ہی نہیں صِرف جھکاؤ میرا
دیر سے ہوں میں اداسی کی فَضاؤں میں’ طــرازؔ !
جھومتے دو مجھے’ اب شعر سناؤ میرا
( فــاروق طــرازؔ )