( غیــر مطبــوعــہ ) ہَوا سے ہاتھ چُھڑایا، فلک کے…
ہَوا سے ہاتھ چُھڑایا، فلک کے زینے سے کی
جو تم سے کہہ نہ سکے بات ‘ وہ سفینے سے کی
یقیں ہے دل کا’ مَحبّت پہ خاتمہ ہو گا
وفا کی ابتدا ہم نے اگر مدینے سے کی
فگار خود ہی کئے ہم نے جان و دل اپنے
یہ دشمنی بھی سدا ہم نے دل کمینے سے کی
ہَوا کے ہاتھ سے بکھرے ہیں بارہا ‘ لیکن
نمازِ شوق ہمیشہ ادا قرینے سے کی
کہاں تلک یہ مرا ضبطِ دل بھی کام آتا
جگر کی آگ تھی’ برفاب زہر پینے سےکی
بنا کے تارِ رگِ جاں کو سُـوزنِ حیرت
نظر کشاد کی ‘ بخیہ گری نگینے سے کی
مِرے وجود کا مجھ کو یقین کیوں آئے
عدم کی اپنے جو تصدیق میں نے جینے سے کی
مَـحبّـتوں کی گھٹا اوڑھ کر میں نکلوں گی
فَضــا ۔۔۔۔ خراب اگر میری تم نے کِینے سے کی
( شــائِستــہ سَــحَــرؔ )