خالی بورے میں زخمی بِلّا جان محمّد خان ! سفر آس…
جان محمّد خان !
سفر آسان نہیں
دھان کے خالی بورے میں
جان اُلَجھتی ہے
پَٹ سَن کی مضبوط سلاخیں
دِل میں گڑی ہیں
اور آنکھوں کے زرد کٹوروں میں
چاند کے سِکّے چَھن چَھن گِرتے ہیں
اور بدن میں رات پھیلتی جاتی ہے !
آج تمہاری ننگی پِیٹھ پہ
آگ جلائے کون ؟
انگارے دہکائے کون ؟
جِدّ و جہد کے
خُونی پھول کِھلائے کون ؟
میرے شُعلہ گر پنجوں میں جان نہیں
تھوڑی دیر میں یہ پگڈنڈی
ٹوٹ کے اِک گندے تالاب میں گِر جائے گی
مَیں
اپنے تابُوت کی تنہائی سے لپٹ کر
سو جاؤں گا
پانی پانی ہو جاؤں گا
اور تمہیں
جان محمّد خان !
تمہیں آگے جانا
اِک گہری نیند میں چلتے جانا ہے
اور تمہیں
اُس نظر نہ آنے والے بورے
اپنے خالی بورے کی پہچان نہیں
( ساقی فارُقی )