( غیــر مطبــوعــہ ) حیرتیں منظر میں گم تھیں’ آئ…
حیرتیں منظر میں گم تھیں’ آئنہ نیزے پَہ تھا
دن نکل آیا تھا اور سورج سَوا نیزے پہ تھا
چل رہے تھے ماتمی دستے سلگتی رَیت پر
دیویوں کے سَر کُھلے تھے’ دیوتا نیزے پہ تھا
کیوں سرِ فرشِ دُوعالم شور تھا ‘ بے تھاہ شور
کیا خدائی رو رہی تھی ؟ کیا خدا نیزے پہ تھا ؟
خوں پکڑتی آگ تھی ۔۔۔ خیمہ بَہ خیمہ دشت میں
راکھ ہوتی زندگی کا سلسلہ ‘ نیزے پہ تھا
کون تھا نیزے پہ ۔۔۔ جس کا نور تھا چاروں طرف
یہ سَرِ آدم ہی کیا جلوہ نما نیزے پہ تھا ؟؟
اُس سخُن آباد میں ہم نے غزل لکّھی جہاں
لفظ سُولی چڑھ چکے تھے’ قافیہ نیزے پہ تھا
عشق پر آزرؔ ! ہزاروں امتحاں آئے ‘ مگر
اُس کی خاطر جان دینے کا مزہ نیزے پہ تھا
( دلاور علی آزرؔ )