( غیر مطبوعہ ) اُس کو مجھ سے بڑی مَحبّت ہے خواب ہ…
اُس کو مجھ سے بڑی مَحبّت ہے
خواب ہوتا ہی خوب صورت ہے
پوری تسبیح پڑھ کے اٹّھوں گی
وِردِ آیت کی مجھ کو عادت ہے
دستکیں بار بار ہوتی ہیں
میری چُپ ! تُو بڑی قیامت ہے
خود سے مِلنا بھی ٹال جاتی ہوں
اِِن دنوں وقت کی بھی قِلّت ہے
میری کھڑکی سے کاش دیکھے وہ
نیلے ساگر سے جس کو نفرت ہے
گھول دیتی ہوں چاندنی میں نیل
جانے کس درد کی یہ شدّت ہے
اپنے سَر کو جھکائے بیٹھی ہوں
خوب جانے وہ جس کی بیعَت ہے
مجھ سے بڑھ کر یہاں نہیں کوئی
میرا آئینہ ‘ میری صورت ہے
خود کو مصروف کر لیا مَیں نے
اپنی تنہائیوں پہ حیرت ہے
میں اگر بونی ہوں’ تو یوں ہی سہی
میرا ہر لفظ میرا قامت ہے
کر لے ‘جتنے ہیں فیصلے کرنے
وقت سب سے بڑی عدالت ہے
فرض جتنے تھے’ کر لیے ہیں ادا
اور جینے کی کیا ضرورت ہے
اک مسلسل سفر ہے دُنیا کا
جاے ہِجرت ہے ‘ جاے حسرت ہے
چاند پر گھر بناؤں گی’ نیناؔں !
میرے خوابوں کی اُس میں جنّت ہے
( فرزانہ نیناں ؔ )