( غیر مطبوعہ ) سرکس وہ دونوں لپیٹے ہُوئے اپنی گ…
سرکس
وہ دونوں
لپیٹے ہُوئے اپنی گردِش
لگاتار چلتے ہیں
کم ہی قریب آتے دیکھا ہے اِن کو
کبھی ایسا ہو بھی تو ڈرتا ہُوں
یک جان ہو کر
یہ دو سے کہِیں ایک ہی بن نہ جائیں
بجا ‘ ایک پہیّا تو سرکس میں چلتا ہے
جوکر گُھماتا ہے
لیکِن یہ گاڑی کہاں چلنے والی ہے
جیون کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مَیں ڈر ڈر کے
درزوں سے آنکھیں لگاتا ہُوں
شاید کبھی دیکھ پاؤں میں یک جان ان کو
اور اپنی یہ پنسل پکڑ کر
بھروں رنگ جیون کے
نقش ِ خیالی میں
لیکن کہاں پنسلوں سے یہ جیون کا نقشہ بنا ہے
حقیقت کہاں کاغذوں پر اُگی ہے
کبھی آگ ۔۔۔۔ پانی سے یک جان ہو کر جَلی ہے
زمیں پر اگر ایک گُم دوسرے میں ہُوا تو
یہ جانو کہ اب وہ زمیں پر نہیں ہے
مَیں چُھپ چُھپ کے
درزوں سے آنکھیں لگا کر
یہی دیکھتا ہُوں
الگ اپنے بستر بِچھاتے ہیں
بَتّی بُجھاتے ہیں
اور پھر
خموشی کی لمبی سڑک پر
نہ جانے کہاں جا نکلتے ہیں
جیون کی گاڑی کو لے کر ۔۔۔۔۔۔۔
( محمّد یامین )