( غیــر مطبــوعــہ ) بے پَروا جب آخری بار ہم مِ…
بے پَروا
جب آخری بار ہم مِلے تھے
ٹھہَـر گئ- تھی وہ شام جیسے
ہماری پلکوں پہ بوجھ بن کے
ہمارے سینے کا زخم بن کر
فَضا پہ تھا حبس کا تسلط
کہ سبز موسِم دھواؑں دھواؑں تھا
لہو لہو آسمان تھا جب
جکڑ لیے تھے قدم زمیں نے
میں دلدلوں میں دھنسی ہوئی تھی
عجب سماں تھا
ہوائیں سہمی ہوئی تھیں
ڈر کر گھنے درختوں میں چُھپ رہی تھیں
تمام خوش بوئیں سانس روکے ہوئے کھڑی تھیں
سماعتیں انتظار میں تھیں
بہار موسِم کو سامنا تھا خزاں کے دکھ کا
سبھی کو معلوم تھا ‘ تمھارا جو فیصلہ تھا
بس ایک موہوم آس تھی جو ابھی تھی باقی
نظر تمہارا طواف کر کر کے لوٹتی تھی
مگر وہ تم تھے
جو بے نیازی سے روند کر کانپتی زمیں کو
جھٹک کے دامن چلے گئے تھے
( شــازیـہؔ مُفتی )