با دِ صَرصَر بھی قُربت کی چلتی رہے ، دن نکلتا رہے …
زُلف ہاتھوں سے تیرے َسنورتی رہے ، دن نکلتا رہے شام ڈھلتی رہے
تیری چاہت ُگلابوں کی خوش بُو َبنے ٫ میرے دیوار و دَر میں کچھ ایسی بسے
تیری مہکار کمرے سے آتی رہے ، دن نکلتا رہے شام ڈھلتی رہے
تیرے احساس کی تن پہ چادر ِلیے ، تیرے ہم راہ رقصاں میں ایسے رہوں
پیار کی مجھ پہ بدَ لِی َبرستی رہے ، دن نکلتا رہے شام ڈھلتی رہے
.
رُوح سے رُوح کا ربط ایسا َبنے ، تیرے ہاتهوں میں جیسے مرا ہاتھ ہو
پھر ُملاقات خوابوں میں ہوتی رہے ، دن نکلتا رہے شام ڈھلتی رہے
میری غزلوں میں تیرا ہی مضمون ہو، میری نظموں میں تُو مجھ سے باتیں کرے
یوں َبیاضِ َتمنّا بھی بھرتی رہے ، دن نکلتا رہے شام ڈھلتی رہے
پیار کے سات رنگوں کی قوسِ قُزح لے کے آئے ســبیـلـہؔ ! وہ مِلنے کبھی
زندگی پهر َوہیں رُک کے ہنستی رہے ، دن نکلتا رہے شام ڈھلتی رہے
( ســبیـلـہؔ انعــام صــدّیـقـی )