( غیــر مطبــوعــہ ) بیٹھے بِٹھائے دوستو !! کب سا…
بیٹھے بِٹھائے دوستو !! کب سانحـہ ہُوا
کچھ تو ہُوا ہے ‘ جس کے سبب سانحـہ ہُوا
اک نیند تھی کہ چِپکی ہُوئی تھی ہر آنکھ سے
کل رات میرے شہر میں جب سانحـہ ہُوا
مجھ کو اکیلا دیکھ کے ‘ غم ساتھ ہو لیا
تم سے جُدا ہُوئی تو عجب سانحـہ ہُوا
یعنی ‘ ہمارے خواب فقَط خواب ہی رہے
یعنی ‘ ہمارا شعر و ادب سانحـہ ہُوا
کچھ یُوں ہُوا کہ جیسے کہِیں کچھ ہُوا نہیں
اُن بستیوں پہ کیسا غضب سانحـہ ہُوا
گویا ۔۔ مَیں جی بھی لی ہُوں تبسُّــمؔ ! جدائی میں
تب تو نہیں ہُوا تھا ‘ پَر اب سانحـہ ہُوا
( تبسُّــــمؔ صِـــدّیــقـی )