( غیــر مطبــوعــہ ) اُداسی ۔۔۔ سب کو پتا ہے کسی…
اُداسی ۔۔۔ سب کو پتا ہے کسی سبب سے ہے
مگر سکون میں کوئی نہیں ہے’ جب سے ہے
مری تباہی کی تاریخ جاننی ہے مجھے
مِرا تمھارا تعلق بتاؤ کب سے ہے ؟
وہ دوستی جسے تم عشق کہہ رہے تھے وہاں
یہاں مذاق کی حد تک ہماری سب سے ہے
جب آنکھیں پھیر کے برقع کا کام لیتے تھے
مرا خیال ہے یہ اضطراب تب سے ہے
تجھے تماشوں دھماکوں میں ڈھونڈتے ہیں ہم
ترے پتے میں لکھا تھا کہ تو غضب سے ہے
یقیں کرو کہ مرا پہلا مسئلہ تم ہو
یہ شعر و شاعری کا مسئلہ تو اب سے ہے
اچھوت بھی عـرَبی میں جو ہم سے بات کرے
تو اس کو سر پہ بٹھائیں کہ وہ عرب سے ہے
( مُـــژدُم ؔ خــان )