رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب سو جاتے ہیں …
سو جاتے ہیں ولیکن بختِ کنار ہر شب
مدت ہوئی کہ اب تو ہم سے جدا رکھے ہے
اُس آفتاب رُو کو یہ روزگار ہر شب
دیکھیں ہیں راہ کس کی یا رب! کہ اختروں کی
رہتی ہیں باز آنکھیں چندیں ہزار ہر شب
دھوکے ترے کسو دن میں جان دے رہوں گا
کرتا ہے ماہ میرے گھر سے گزار ہر شب
دل کی کدورت اپنی اک شب بیاں ہوئی تھی
رہتا ہے آسماں پر تب سے غبار ہر شب
کس کے لگا ہے تازہ تیرِ نگاہ اُس کا
اک آہ میرے دل کے ہوتی ہے پار ہر شب
مجلس میں مَیں نے اپنا سوزِ جگر کہا تھا
روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب
مایوسِ وصل اُس کے کیا سادہ مردماں ہیں
گزرے ہے میرؔ اُن کو امیدوار ہر شب
(میر تقی میرؔ)
[ad_2]