فیض احمد فیضؔ . آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے اُس …
.
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اُس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے ماہتاب اُترے !
دستِ ساقی میں آفتاب آئے
ہر رگِ خوُں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دِل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب !
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دِل میں یوُں روز اِنقلاب آئے
جل اُٹھے بزمِ غیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
اِس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیضؔ تھی راہ سر بسر منزِل
ہم جہاں پہنچے، کامیاب آئے
.
فیض احمد فیضؔ