تُو نے بند آنکھ سے جو بات کہی،یاد رہی – ناصر ملک
تُو نے بند آنکھ سے جو بات کہی،یاد رہی
چھین لینے کی ادا یاد رہی،یاد رہی
تُو نے جو کچھ بھی کہا،وہ تو مجھے یاد نہیں
بات کرنے میںتری پہلو تہی یاد رہی
راحتیں بھول گئے ہم بھی زمانے کی طرح
اُن مراسم کی اذیت جو سہی، یاد رہی
ایک لحظے میں لٹائی تھی فقیری ہم نے
ایک لحظے کی وہی باد شَہی، یاد رہی
جستجو شہرِ تماشا میں اُٹھا لائی جہاں
آگہی بھول گئی، لطفِ گہی یاد رہی
عہدِ ہجراں نہ رہا یاد جسے لکھتے رہے
ساعتِ وصل کہ بے فیض سہی، یاد رہی
حاصلِ عشق وہی اشک تھا جو روٹھ گیا
اشک میں کشتِ تمنا جو بہی، یاد رہی
ناصر ملک