( غیــر مطبــوعــہ ) چلا کے تیر جو اُس نے کمان رک…
چلا کے تیر جو اُس نے کمان رکھ دی ہے
لبوں پہ کھینچ کے ہم نے بھی جان رکھ دی ہے
تری عطا ۔۔۔۔ ترے قدموں میں دان کرنے کو
زمین جا کے سرِ آسمان رکھ دی ہے
بچھا کے خاک ترے در پہ آ کے بیٹھ گئے
اٹھا کے طاق پہ سب آن بان رکھ دی ہے
بَہ جُــز ثناؑ کے کوئی حرفِ آرزو ہی نہیں
ہمارے منہ میں یہ کس کی زبان رکھ دی ہے
یہاں سوال نہیں کوئی سرخ رُوئی کا
کہ ہم نے پہلے ہتھیلی پہ جان رکھ دی ہے
سنا کے حالِ چمن خوش گُلو قلندر نے
مِرے گلے میں اداسی کی تان رکھ دی ہے
( رِضــــوانؔ عــلـی )