( غیــر مطبــوعــہ ) کھینچ لاتی ہے کوئی چشمِ خرید…
کھینچ لاتی ہے کوئی چشمِ خریدار مجھے
اَور یہ شہر سمَجھتا ہے گرِفتار مجھے
اُس نے کاغذ پہ کوئی پھول بنا کر بھیجا
اَور اُس پھول سے آنے لگی مہکار مجھے
ایک ہی نام کی تســبیح مسلسل کرنا
اِس اذیّت نے سکوں بخشا کئی بار مجھے
تُو مِرے دل سے نکلنے کا بہُت سوچتا ہے
تُو یقیناً کہِیں پہنچائے گا آزار مجھے
تجھ سے پہلے بھی کئی آئے تھے پُرسہ دینے
اَور وہ اچّھا بَھلا کر گئے بیمار مجھے
آتے جاتے میں اِنہیں مِلنے چلا آتا ہُوں
یہ دُکاں دار سمَجھتے ہیں خریدار مجھے
ایسے سونے سے مِرا جاگنا بہتر ہے ” جہاں
نیند کی گولی سے ہونا پڑے بے دار مجھے
اک مَحبّت کے دِلاسے پہ ہوں زندہ ‘ عــامــیؔ !
ورنہ اِتنی بھی سہولت نہیں درکار مجھے
( عِمـــران عــامــیؔ )