پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ، دیکھو مجھ کو دی…
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنّا دیکھو
ہم نہ کہتے تھے بناوٹ ہے یہ سارا غصّہ
ہنس کے لو پھر وہ انھوں نے ہمیں دیکھا، دیکھو
گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام دیکھو نہ میری جان سویرا دیکھو
محفلِ غیر میں بے پردہ تمہیں دیکھ لیا
اب کبھی ہم سے خبردار نہ چھپنا، دیکھو
خانۂ جان میں نمودار ہے اک پیکرِ نور
حسرتو! آؤ رخِ یار کا جلوہ دیکھو
دل کو رنگینیِ خواہش کی خطا پر آخر
ملتی ہے اس گلِ رعنا سے سزا کیا، دیکھو
سامنے سب کے مناسب نہیں ہم پر یہ عتاب
سر سے ڈھل جائے نہ غصّے میں دوپٹہ، دیکھو
مر مٹے ہم تو کبھی یاد بھی تم نے نہ کیا
اب محبّت کا نہ کرنا کبھی دعویٰ، دیکھو
سر کہیں، بال کہیں، ہاتھ کہیں، پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا، دیکھو
اب وہ شوخی سے یہ کہتے ہیں ستمگر ہیں جو ہم
دل کسی اور سے کچھ روز کو بہلا، دیکھو
واعظو! منہ میں تمہارے بھی بھر آئے پانی
مے رنگین کا جو ساغر سے چھلکنا دیکھو
بات کیا ہے جو ہوئے جاتے ہو تم یونہی خفا
مجھ کو دیکھو نہ مرے دل کا دھڑکنا دیکھو
جرمِ نظارہ پہ کون اتنی خوشامد کرتا
اب وہ روٹھے ہیں لو اور تماشا دیکھو
دو ہی دن میں وہ بات ہے، نہ وہ چاہ نہ پیار
ہم نے پہلے ہی یہ تم سے نہ کہا تھا دیکھو
مستیِ حسن سے اپنی بھی نہیں تم کو خبر
کیا سنو عرضِ میری،حال میرا کیا دیکھو
دوستو ترکِ محبّت کی نصیحت ہے فضول
اور نہ مانو تو دلِ زار کو سمجھا دیکھو
ہوَسِ دل مٹی ہے نہ مٹے گی حسرتؔ
دیکھنے کے لیئے چاہو انہیں جتنا دیکھو
حسرتؔ موہانی
المرسل: فیصل خورشید