پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے ہم لا کھ بدل ج…
ہم لا کھ بدل جائیں، مگر دِل تو وہی ہے
موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شِیرِیں
محِفل ہو کوئی، رَونَقِ محِفل تو وہی ہے
محسُوس جو ہوتا ہے، دِکھائی نہیں دیتا
دِل اور نظر میں حدِ فاصِل تو وہی ہے
ہر چند تیرے لُطف سے محرُوم نہیں ہم
لیکن دلِ بیتاب کی مُشکل تو وہی ہے
گرداب سے نکلے بھی تو، جائیں گے کہاں ہم
ڈُوبی تھی جہاں ناؤ، یہ ساحِل تو وہی ہے
لُٹ جاتے ہیں دِن کو بھی جہاں قافلے والے
ہشیار مُسافر ! کہ یہ منزِل تو وہی ہے
وہ رنگ، وہ آواز، وہ سج اور وہ صُورت
سچ کہتے ہو تم پیار کے قابِل تو وہی ہے
صد شُکر کہ اِس حال میں جیتے تو ہیں ناصؔر
حاصِل نہ سہی، کاوشِ حاصِل تو وہی ہے
ناصؔر کاظمی
المرسل: فیصل خورشید