سعید احمد اختر کی کی وفات Aug 20, 2013 نامور شاعر …
Aug 20, 2013
نامور شاعر اور ادیب سعید احمد اختر 3 مارچ 1933 کو پشین میں پیدا ہوئے تھے ، وہ محکمہ تعلیم اور سول سروس سے وابستہ رہے اور متعدد انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ۔ ان کی تصانیف میں دیار شب، سطح آب، چاندنی کے سائے، خوابگینے، لے گئی پون اڑا، پوجا کے پھول، ورشانجلی، پتا ٹوٹا ڈال سے،اب کے بچھڑے کب ملیں، دور پڑے ہیں جا، گھونگھٹ کا پٹ کھول رے گوری اور بیچے تو بک جاوں کے نام سر فہرست ہیں ۔ جناب سعید احمد اختر 20 اگست 2013ء کی صبح ڈیرہ اسماعیل خان میں وفات پاگئے ان کے صاحبزادے خاور احمد اور داماد غلام محمد قاصر بھی اردو کے معروف شاعروں میں شمار ہوتے ہیں ۔
یہ حادثہ بھی تو کچھ کم نہ تھا صبا کے لیے
گلوں نے کس لیے بوسے قبا کے لیے
وہاں زمین پر ان کا قدم نہیں پڑتا
یہاں ترستے ہیں ہم نقش پا کے لیے
تم اپنی زلف بکھیرو کہ آسماں کو بھی
بہانہ چاہیۓ محشر کے التوا کے لیے
یہ کس نے پیار کی شمعوں کو بددعا دی ہے
اجاڑ راہوں میں جلتی رہیں سدا کے لیے
ابھی تو آگ سے صحرا پڑے ہیں رستے میں
یہ ٹھنڈکیں ہیں فسانے کی ابتدا کے لیے
سلگ رہا ہے چمن میں بہار کا موسم
کسی حسین کو آواز دو خدا کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بُت کیا ہیں ، بشر کیا ہے؟ یہ سب سلسلہ کیا ہے
پھر میں ہوں مرا دل ہےمِری غارِ حرا ہے
جو آنکھوں کے آگے ہے یقیں ہے کہ گماں ہے
جو آنکھوں سے اوجھل ہے خلا ہے کہ خدا ہے
تارے مری قسمت ہیں کہ جلتے ہوئے پتھر
دنیا مری جنت ہے کہ شیطاں کی سزا ہے
دل دشمنِ جاں ہے تو خِرد قاتلِ ایماں
یہ کیسی بلاؤں کو مجھے سونپ دیا ہے
سُنتے رہیں آرام سے ہر جُھوٹ تو خوش ہیں
اور ٹوک دیں بُھولے سے تو کہتے ہیں بُرا ہے
شیطان بھی رہتا ہے مِرے دل میں خدا بھی
اب آپ کہیں دل کی صدا کس کی صدا ہے
اختر نہ کرو اُن سے گِلہ جَور و جفا کا
اپنی بھی خدا جانے ہوس ہے کہ وفا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ حقیقت تو ہوا کرتی تھی انسانوں میں
وہ بھی باقی نہیں رہی اس دور کے انسانوں میں
وقت کا سیل بہا لے گیا سب کچھ ورنہ
پیار کے ڈھیر لگے تھے مرے گلدانوں میں
شاخ سے کٹنے کا غم ان کو بہت تھا لیکن
پھول مجبور تھے ہنستے رہے گل دونوں میں
ان کی پہچان کی قیمت تو ادا کرنی تھی
جانتا ہے کوئی اپنوں میں نہ بیگانوں میں
سر ہی ہم پھوڑنے جائیں تو کہاں جائیں گے
کھوکھلے کانچ کے بت ہیں ترے بت خانوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔