یہ کیف کیف- محبت ہے کوئی کیا جانے چھلک رہے ہیں نگا…
چھلک رہے ہیں نگاہوں میں دل کے پیمانے
کہانیوں ہی پہ بنیاد ہے حقیقت کی
حقیقتوں ہی سے پیدا ہوئے ہیں افسانے
نہ اب وہ آتش- نمرود ہے نہ شعلہء طور
تری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے
ہزار تیری محبت نے رہ نمائی کی
گزر سکے نہ مقام- جنوں سے دیوانے
انہی کو حاصل- یک شہر- آرزو کہئے
مری نگاہ میں آباد ہیں جو ویرانے
تجھے خبر بھی ہے اس دور- خستہ حالی میں
خود اہل- دل ہیں مذاق- وفا سے بیگانے
جنوں فریب- خرد ہے، خرد فریب- نظر
مجھے کہیں کا نہ رکھا مری تمنا نے
(حسیب اشعر دہلوی)
المرسل:-: ابوالحسن علی ندوی(بھٹکلی)
[ad_2]