نظم – اردو زباں یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا مزا …
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا
مزا گھلتا ہے لفظوں کا زباں پر
کہ جیسے پان میں مہنگا قوام گھلتا ہے
نشہ آتا ہے اردو بولنے میں
گلوری کی طرح ہیں منہ لگی سب اصطلاحیں
لطف دیتی ہیں
حلق چھوتی ہے اردو تو
حلق سے جیسے مئے کا گھونٹ اترتا ہے
بڑی “ایرسٹوکریسی”ہے زباں میں
فقیری میں نوابی کا مزہ دیتی ہے اردو
اگر چہ معنی کم ہوتے ہیں اور الفاظ کی
افراط ہوتی ہے
مگر پھر بھی
بلند آواز پڑھئیے تو بہت معتبر لگتی ہیں باتیں
کہیں کچھ دور سے کانوں میں پڑتی ہے اگر اردو
تو لگتا ہے
کہ دن جاڑوں کے ہیں ، کھڑکی کھلی ہے، دھوپ
اندر آرہی ہے
عجب ہے یہ زباں اردو
کبھی یوں ہی سفر کرتے
اگر کوئی مسافر شعر پڑھ دے، میر ، غالب کا
وہ چاہے اجنبی ہو
یہی لگتا ہے وہ میرے وطن کا ہے
بڑے شائستہ لہجے میں کسی سے اردو سن کر
کیا نہیں لگتا
کہ اک تہذیب کی آواز ہے اردو
گلزار