( غیــر مطبــوعــہ ) میں نے سن رکّھی ہے صاحِب ! …
میں نے سن رکّھی ہے صاحِب ! ایک کہانی دریا کی
شام کنارے بینچ پہ بیٹھے ‘ وہ بھی زبانی دریا کی
ورنہ ہم بھی آئینے کے’ بھید سے واقف ہوجاتے
ہم نے اپنی من مانی کی’ ایک نہ مانی دریا کی
ریت کے چھوٹے ٹکڑے پر ہی آبادی مقصود ہوئی
اسی بہانے چاروں جانب ہے سلطانی دریا کی
آنکھیں ہی اظہار کریں تو شاید کوئی بات بنے
سورج ڈھلتے وقت جو دیکھی تھی ویرانی دریا کی
صبحِ ازل سے ایک ہی جیسے ملتے جلتے دریا ہیں
کس نے دیکھی کس نے جانی شکل پرانی دریا کی
سات سمُندر دیکھنے لگ گئے اپنے بڑھاپے کی جُھریاں
اپنے جوبن پر جب آئی ۔۔۔ شوخ جوانی دریا کی
پیاسوں کے رتبے کے بارے دشت بتا سکتا ہے یا
دسویں محرّم کو سُن لینا نوحہ خوانی دریا کی
( اســـامــہؔ امیــر )