شاذ تمکنت ……… متفرق اشعار ….. آگے آگے کوئ …
…..
آگے آگے کوئ مشعل سی لئے چلتا تھا
ہائے اس شخص کا کیا نام تھا پوچھا بھی نہیں
…….
نہ جانے کون سے عالم ميں اس کو ديکھا تھا
تمام عمر وہ عالم رہا ہے آنکھوں ميں
…..
کل اس کے ساتھ ہي سب راستے روانہ ہوئے
ميں آج گھر سے نکلتا تو کس کے گھر جاتا
……
ہر صبح سب سے پوچھتے پھرتے ہيں ہم کہ آج
بندے ہيں کون؟ کس کو خدا مانتے ہيں لوگ
…..
ميں يہ کہتا ہو کہ مجھ سا نہيں تنہا کوئي
آپ چاہيں تو ميري بات ميں ترميم کرليں
………
ميرا ضمير بہت ہے مجھے سزا کيلئے
تو دوست ہےتو نصيحت نہ کر خدا کيلئے
……..
کوئي گلہ کوئی شکوہ ذرا رہے تم سے
يہ آرزو ہے کہ اک سلسلہ رہے تم سے
……
کيا قيامت ہے مجھے حوصلہ ضبط ہے شاذ
کيا غضب ہے کہ ترے درد کا اندازہ ہے
…..
يہ جہاں ہے مجلس بے اماں کوئي سانس لے تو بھلا کہاں
ترا حسن آگيا درمياں يہي زندگي کا جواز ہے
…..
ميں جسے ديکھنا چاہوں وہ نظر نہ آسکے
ہائے ان آنکھوں پہ کيوں تہمتِ بينائي ہے
……
ملوں گا خاک ميں اک روز بيج کي مانند
فنا پکار رہي ہے مجھے بقا کيلئے
……
اے ارض و سما تجھ ميں دل بن کے دھڑکتے ہيں
کچھ يونہي نہيں ہم کو آداب ِغزل آئے
……
يوں بھي کچھ دن کيلے دور رہا ہوں تجھ سے
ليکن اس بار سفر کي يہ تھکن اور ہي ہے
…….
کچھ دير رو بھي لے ، طبعيت بحال ہو
کيا سوچنے سے فائدہ کيوں سوچتا ہے پھر
……
ذرا سي بات تھي بات آگئي جدائي تک
ہنسي نے چھوڑ ديا لا کے جگ ہنسائي تک
بھلے سے اب کوئي تيري بھلائي گنوائے
کہ ميں نے چاہا تھا تجھ کو تيري برائي تک
……..
پھر کوئي آئے جسے ٹوٹ کے چاہا جائے
ہميں ايک عمر ہوئي ہے کف افسوس ملے
……..
خدا نہيں ہے تو کيا ہے ہمارے سينوں ميں
وہ اک کھٹک سي جسے ہم ضمير کہتے ہيں
…..
خیال آتے ہی کل شب تُجھے بھُلانے کا
چراغ بجھ گیا جیسے مرے سرہانے کا