( انوار فطرتؔ کے لئے ) یہ نظم مجھ سے نہیں لکّھی …
یہ نظم مجھ سے نہیں لکّھی جائے گی
۔
لوگ
ویسے ہوتے نہیں
جیسے دکھائی دیتے ہیں
اِس میں کچھ نقص
ہماری بصارت کا بھی ہوتا ہے
لیکن کما ل بہ ہر حال اُنھی کا ہے
جو اپنی اصلیّت چھپا لینے میں
عظیم اداکاروں کو مات دے جاتے ہیں
۔
چالاک عورت
سو لومڑیوں کی ماں ہوتی ہے
لیکن ہمیشہ کنواری دکھائی دیتی ہے
عین ممکن ہے سفید ریش حاجی خان
کالے دھندے میں ملوّث ہو
ٹی وی مباحثے میں
مقدّس آیات کوٹ کرنے والے نے
مصنوعی داڑھی لگا رکّھی ہو
ہر دل عزیز پروفیسر کے گِرد جمگھٹا
اُن طالبات کا ہو
جنھیں وہ ہیروئن سپلائی کرتا ہے
دس ہزارمیں شــبینہ گرل واقعی منہگی لگتی ہے
لیکن دس لاکھ میں
پی ایچ ڈی کا تھیسس لکھ دینے والاپروفیسر
کتنا سستا ہے
حقوقِ نسواں کی علَم بردار
میڈیا کے سامنے
حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے تو
کیمروں کی آنکھیں جھک جاتی ہیں
اُس کی للکار سے
بالائی ایوانوں کی دیواریں لرزنے لگتی ہیں
لڑکھڑاتے حاکموں کو سہارتی
ایک رات کی دلھنیں
فراہم کرنے والی میڈم کی چیخ پکار میں
کنواری ماؤں کا درد کیسے شامل ہو سکتا ہے؟
۔
معاشی یتیموں کی زبان کے
پیپرز مارک کرنے والے ممتحن نے
(کلیریکل مس ٹیک سے
بنڈل میں آ جانے والے )
دوسری زبان کے ایک پرچے کو
بے خیالی میں سَو کے سو نمبر عطا کردیئے! !
تو کون سی قیامت آ گئی؟
پرنسپل نے جیسے تیسے
اس کی نوکری بچا ہی لی تھی !
۔
اور
ایک تم ہو
دو گھنٹے میں ایک مریض کی ہسڑی لیتے ہو
اور درست تشخیص کے بعد بھی
کانپتے ہاتھوں سے بے ضرر میٹھی گولیوں کی
پڑیاں بناتے ہوئے سوچتے ہو
اس سالے کے پاس تو
دو وقت کی روٹی کے پیسے بھی نہیں ہوں گے!
تم، اُسے دوا کی پڑیاں
اور دعا کی چڑیاں تھماتے ہوئے
اپنی نظریں نیچی کر لیتے ہو!
۔
میں تم پر ضرور نظم لکّھوں گا
سنا ہے تم نے اخبار کے سیٹھ کے منہ پر
استعفیٰ دے مارا ہے
اور اب بزنس کا ا۔ ر۔ا۔ د۔ ہ کر رہے ہو!
۔
( علـی محـــمّد فــرشــیؔ )