حال اُس کا تیرے چہرے پہ لِکھا لگتا ہے وہ جو چُپ چا…
وہ جو چُپ چاپ کھڑا ہے تیرا کیا لگتا ہے
یُوں تو ہر چیز سلامت ہے میری دُنیا میں
ایک تعلّق ہے جو ٹُوٹا ہوا لگتا ہے
میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اِک شہر میں مَیں
یہاں تو ہر شخص کا انداز جُدا لگتا ہے
مدّتیں بِیت گئیں طے نہ ہوئی منزلِ شوق
ایک عالم میرے رَستے میں پڑا لگتا ہے
اے میرے جذبہٓ دَوراں مُجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تِیر بھی آ لگتا ہے
جانے کون سی پستی میں گِرا ہوں شہزاؔد
سُورج بھی اس قدر دُور ہے کہ دِیا لگتا ہے
شہزاد احمد