دو غزلہ جونؔ ایلیا عذابِ ہِجر بڑھا لُوں اگر اِجازت…
عذابِ ہِجر بڑھا لُوں اگر اِجازت ہو
اِک اور زخم کھا لُوں اگر اِجازت ہو
تُمہارے عارِض و لب کی جُدائی کے دِن ہیں
مَیں جام منہ سے لگا لُوں اگر اِجازت ہو
تُمہارا حُسن تُمہارے خیال کا چہرہ
شباہتوں میں چُھپا لُوں اگر اِجازت ہو
تُمہِیں سے ہے مِرے ہر خوابِ شوق کا رِشتہ
اِک اور خواب کما لُوں اگر اِجازت ہو
تھکا دیا ہے تُمہارے فِراق نے مُجھ کو
کہیں مَیں خود کو گِرا لُوں اگر اِجازت ہو
برائے نام بنامِ شبِ وِصال یہاں
شبِ فِراق منا لُوں اگر اِجازت ہو
۔۔۔۔۔
تُمہارا ہِجر منا لُوں اگر اِجازت ہو
مَیں دِل کِسی سے لگا لُوں اگر اِجازت ہو
تُمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لُوں اگر اِجازت ہو
تُمہارے ہِجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لُوں اگر اِجازت ہو
جُنُوں وہی ہے وہی مَیں مگر ہے شہر نیا
یہاں بھی شور مچا لُوں اگر اِجازت ہو
کِسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پِھر بھی
مَیں اپنے زخم دِکھا لُوں اگر اِجازت ہو
تُمہاری یاد میں جینے کی آرزُو ہے ابھی
کُچھ اپنا حال سنبھالُوں اگر اِجازت ہو۔۔۔!
……
بشکریہ محبت خان