جنگ – مریم جہانگیر
پانی ما ں پانی بچوں کی زبان پہ بس ایک ہی مانگ تھی.اور سوکھے منہ والی ماؤں کے پاس لعاب دہن بھی نہ تھا کہ ان کے منہ کو گیلا ہی کر دیتی. سورج کی تیز روشنی آنکھوں میں چبھتی اور جسم کے اندر تک سے پانی چوس لیتی سارا جسم پیاس پیاس چلانے لگتا.بادل بھی روٹھے ہوئے تھے الٹے ہاتھ کر کر کے ہاتھ پتھرا گئے مگر دعائیں عرش سے ٹکرا کر واپس آجاتی.سب ایک دوسرے کی طرف کن اکھیوں سے دیکھتے کہ ضرور کسی اور کے گناہوں کی سزا ہے کہ رب کو ہم پہ رحم نہیں آرہا.دن طویل ہوتے گئے .پہلے پہل تو اٹکی ہوئی جانیں سپردِ خاک ہوئی کئی بہوئیں گھر کی چودھرائن بنی کئی بیٹے بٹوارے کے مقام تک آگئے پھر لاغر سے بچے اپنے ہونے کا شکوہ کرتے فانی دنیا سے کوچ کر گئے .اب ہر کسی کو جان کے لالے پڑے تھے لگتا تھا کوئی نہ بچے گا.یہ ڈر گھر گھر موت کا توشہ لئے پھرنے لگا.تنور ہوتی زمین میں اب دفنانے کا تکلف بھی چھوڑ دیا گیا.کنوئیں تو خشک تھے ہی اب درختوں کے پتے چوسنے سے بھی افاقہ نہ ہوتا.گاؤں سارے کا سارا ویرانہ بنتا جارہا تھا. الیکشن کی تاریخ قریب آئی.ادھ مرے زندوں میں زندگی کی رمق دوڑ گئی. کوئی تو آئے گا یقین محکم تھا .دن جلتے بلتے آس کا کنارہ دئیے گزرنے لگے.حکومتی کارندوں کی گاڑی جب گاؤں میں داخل ہوئی تو گاڑی کو دس جگہ ٹہرنا پڑا راستے میں پڑے لاشے گھسیٹ کر ہٹائے گئے پانی مردوں کے منہ پر ڈالا گیا کہ شاید کوئی ہوش میں آجائے مگر پپڑی زدہ ہونٹ شکوہ کناں تھے. سارے گاؤں کا چکر لگایا کہیں بندہ نہ بندے کی ذات سانس لیتی پائی گئی.پانی کی بوتلوں سے بھری گاڑی میں جب واپس سوار ہونے لگے تو برتن گرنے کی آواز آئی وہ آواز کی سمت میں لپکے. پردہ ہٹایا پاؤں میں چھری اور چمچیں آئی سامنے کملائی ہوئی جوان ماں چھوٹے سے بچے کا سینہ چیرے منہ خون سے رنگے بیٹھی تھی