نگار صہبائی کی وفات Aug 07, 1926 نگار صہبائی کا ا…
Aug 07, 1926
نگار صہبائی کا اصل نام محمد سعید تھا اور وہ 7 اگست 1926ء کو ناگ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مدراس اور ناگ پورسے حاصل کی۔ 1947ء میں وہ پاکستان آگئے جہاں انہوں نے جامعہ کراچی سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے شاعری کی تربیت اپنے ماموں عبدالوہاب سے حاصل کی۔ ابتدا میں انہوں نے شاعری کے علاوہ افسانے بھی لکھے اور انہیں مصوری، موسیقی اور رقص کا شوق بھی رہا۔ انہوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کی محبوب صنف سخن گیت نگاری تھی جس میں وہ ایک منفرد اسلوب کے مالک تھے۔ ان کے گیتوں کے تین مجموعے جیون درپن، من گاگر اور انت سے آگے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
8 جنوری 2004ء کو اردو کے ممتاز گیت نگار شاعر نگار صہبائی کراچی میں وفات پاگئے۔
“منتخب کلام ”
جیون کے سب بیتے ہوئے پل
آج مرے آنگن میں کھڑے ہیں
کس کس کو میں کیا سمجھاؤں
سانس کے کتنے کوس کڑے ہیں
کنول کھلے ہیں ایک ندی میں
ایک ندی پر کائی جمی ہے
کنچن کایا اک میں نہائے
ایک میں جیسے میری کمی ہے
جو بھی لکھا ہے تیری لگن ہے
جو بھی لکھوں گا تجھ کو لکھوں گا
پر اتنی فرصت تو دے دے
من میں ادھورے چتر پڑے ہیں
بارش کی بوچھاڑ میں گھر کر
کپڑے تو سوکھے ہیں میرے
من ہے اب ایسا جل تھل
کبھی نہ ہوں پت جھڑ کے پھیرے
سمے سے آگے میں چلتا ہوں
مجھ سے آگے رات چلے ہے
پل کے فیتے سے مت ناپو
گیت تو میرے مجھ سے برے ہیں
رات کی چوکھٹ نے پوچھا ہے
لوٹنے والا کیوں نہی آیا
اوڑھ کے دھرتی سو گیا ہوگا
بھا گئی ہوگی پیڑ کی چھایا
ڈوبتا سورج ہاتھ بڑھا کر
مٹی دے کر جا بھی چکا ہے
جھلمل تارے میرے سرہانے
کتھا سنانے کب سے کھڑے ہیں