( غیـــر مطبــوعــہ ) ٭ مِری طرف تری اُٹھتی نگاہ …
٭ مِری طرف تری اُٹھتی نگاہ تھوڑی ہے
ترے گریز میں اب اِشــتباہ تھوڑی ہے
چراغ جلتے رہیں گے’ ہوا ! بَہ غور یہ سُن
ہنر پہ تجھ کو ابھی دست گاہ تھوڑی ہے
ہے ایک عشق سے آمیز راستے کا سفر
ذرا سی دُور بَہ طرزِ نباہ تھوڑی ہے!
جزا سزا سے کہیں ماورا ہے میرا عمل
یہ کارِ عشقِ مسلسل گناہ تھوڑی ہے
کوئی مکین نہیں کرسکے سکونت خاص
ہمارا دل ابھی ایسا تباہ تھوڑی ہے
ہوائیں اور شجر اور طائرانِ خیال
اک آسمان ہمارا گواہ تھوڑی ہے
اب اس کے بعد سفر پار اک تحیُّر ہے
بتا رہا ہوں تمہیں انتباہ تھوڑی ہے
٭ پــرویــز ســاحِــرؔ کی مَحبّت کی نذر
( محسِــنؔ شکیــل )