کیا تجھ کو سنانی ہے، کیا تجھ سے چھپانی ہے
کیا تجھ کو سنانی ہے، کیا تجھ سے چھپانی ہے
اس کربِ محبت کی ہَر بات پرانی ہے
کیا زعمِ تخیل ہو، کیا تابِ خرد خیزی
ہر سوچ تو صدیوں کی پروردہ کہانی ہے
اے اُجڑے ہوئے لوگو! دُکھ درد سمیٹو بھی
خوش ملنا ضروری ہے جب عید منانی ہے
بدلاتو نہیں میں بھی، بدلے تو نہیں تم بھی
ملنے کی اذیت کیوں پھر ہم نے اُٹھانی ہے
لفظوں کا تماشا گر شاعر ہوں، محبت کا
اظہار بھی کرنا ہے، عزت بھی بچانی ہے
چھپ جائے نگاہوں سے یہ اکھڑا پلستر تو
کوئی بھی سہی، ہم نے تصویر لگانی ہے
کیوں مارتے ہو مجھ کو دو جھوٹ اگر بولے
جینا تو مجھے بھی ہے، روٹی تو کمانی ہے
(ناصر ملک)