( غیــر مطبــوعــہ ) پہلے کمرے سے الماری نکلی تھی…
پہلے کمرے سے الماری نکلی تھی
بعد میں ہر اِک یاد تمہاری نکلی تھی
دُرویشی کا رونا رونے والوں کی
اِک اِک جیب سے دُنیا داری نکلی تھی
راج کمار کے آنسو دیکھنے والے تھے
جس حالت میں راج کماری نکلی تھی
جس کو ہم نے چَور بنا کر پیش کیا
اُس کے قبضے سے لاچاری نکلی تھی
وہ ملبہ بھی اُس نے ہم پر ڈال دیا
جس ملبے سے لاش ہماری نکلی تھی
یہ دُنیا بھی اُتنی ہی دو نمبر ہے!!
وہ دُنیا جتنی بازاری نکلی تھی
کیسے کیسے دشمن سامنے آئے تھے
جب یاروں کے دل سے یاری نکلی تھی
اُس نے سارے گھر کا ستیاناس کیا
اُن ہونٹوں سے جو چنگاری نکلی تھی
جس لڑکی پر سارا گاؤں مرتا تھا
وہ لڑکی بھی قسمت ماری نکلی تھی
لوگوں کو یہ وَہم کہ جانے کیا ہوگا
اور اس در سے خاک ہماری نکلی تھی
تم پانی کو لے کر بیٹھے ہو ‘ عــامـی ؔ !
اس دریا کی ریت بھی کھاری نکلی تھی
( عمــــران عــامـیؔ )