( غیــر مطبــوعــہ ) آئنے کے سامنے اک آئنہ رکھتا …
آئنے کے سامنے اک آئنہ رکھتا ہوں مَیں
رات دن حیرت میں خود کو مبتلا رکھتا ہوں مَیں
دوستوں والی بھی اک خوبی ہے اُن میں ‘ اِس لئے
دشمنوں سے بھی مسلسل رابطہ رکھتا ہوں مَیں
رُوز و شب مَیں گھومتا ہوں وقت کی پرکار پر
اپنی چاروں اور کوئی دائرہ رکھتا ہوں مَیں
دستکیں دینے کی زحمت بھی کوئی کیوں کر کرے
اِس لئے تو گھر کا دروازہ کُھلا رکھتا ہوں مَیں
چند یادیں ‘ ایک چہرہ ‘ ایک خواہش ‘ ایک خواب
اپنے دل میں اور کیا اِن کے سوا رکھتا ہوں مَیں
اِن دنوں تابِشؔ ! مِری خود سے نہیں بنتی ذرا
اِن دنوں خود سے بھی تھوڑا فاصلہ رکھتا ہوں مَیں
( تــوصـــیــفـــــــ تــابـــشؔ )