جب حضرت شمس الدین تبریزی رحمتہ ﷲ علیہ نے دعا کی کہ…
کہ اے خدا شمس تبریز کا وقت آخر معلوم ہوتا ہے۔ میرے سینے میں آپ کی محبت کی آگ کی جو امانت ہے کوئی بندہ ایسا عطا فرما کہ اس کے سینے میں امانت کو منتقل کردوں، کوئی ایسا سینہ عطا کردے جو اس قیمتی امانت کا اہل ہو،
الہام ہوا کہ
“اے شمس الدین ! قونیہ جاؤ، میرا ایک بندہ جلال الدین رومی ہے میری محبت کی آگ کی اس امانت کو جو زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہے اس کے سینے میں منتقل کردو، اس کا سینہ اس کے قابل ہے۔
اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ امانت زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین و آسمان نے انکار کر دیا تھا۔ زمین و آسمان جیسی عظیم القامت مخلوق نے جن امانت کو اٹھانے سے انکار کردیا، ﷲ کے عاشقوں کے دل نے اسے قبول کرلیا جو ڈیڑھ چھٹانک کا ہے مگر اس کو ڈیڑھ چھٹانک کا نہ سمجھو۔ حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں ؎
در فراخ عرصۂ آں پاک جاں
تنگ آید عرصۂ ہفت آسماں
ﷲ والوں کی جانوں میں، ان کے قلوب میں اتنا پھیلاؤ اتنی وسعت ہے کہ ساتوں آسمان کی وسعت اس کے سامنے تنگ ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ ﷲ کے خاص بندے ہیں۔ ﷲ ان کے قلب میں ایسی وسعت پیدا کردیتا ہے کہ ساتوں آسمان اس کے قیدی معلوم ہوتے ہیں۔
تو مولانا رومی رحمتہ ﷲ علیہ نے اپنے کو نہیں دیکھا کہ میں کیا ہوں، جب شمس الدین تبریزی کا بستر شاہ خوارزم کے نواسے نے سر پر رکھا تو ایک شعر کہا تھا ؎
ایں چنیں شیخ گدائے کوبکو
عشق آمد لا ابالی فَاتّقُوْا
میں اتنا بڑا شیخ اور عالم تھا کہ آج ﷲ کے عشق نے مجھے یہ شرف بخشا کہ گلی در گلی شمس الدین تبریز کی غلامی کررہا ہوں لیکن یہ ان کی غلامی نہیں تھی ﷲ ہی کی غلامی تھی۔ ﷲ ہی کے لیے مٹایا تھا اپنے آپ کو، اہل ﷲ کا اکرام وہی کرتا ہے جس کے دل میں ﷲ کی طلب اور پیاس ہوتی ہے۔
حضرت شمس الدین تبریزیؒ کی چند دن کی صحبت کے بعد مولانا رومی پر حق تعالیٰ نے علمِ لُدنی کے دریا کھول دیے