( غیــر مطبــوعــہ ) ” ہم شاعر ہوتے ہیں ” ( وحید…
” ہم شاعر ہوتے ہیں ”
( وحید احمد کے لئے ایک نظم )
صدیوں ، صدیوں خود سے بھی کب ملتے ہیں
اوبڑ ، کھابڑ سے رستوں پر چلتے ہیں
آڑھے ، ترچھے ، اُدھڑے
خواب رفو کرتے ہیں
قطرہ ، قطرہ
جیون کے ، گدلے پانی میں
اُلٹے رُخ پر بہتے ہیں
مٹّی ، گارا ، پتّھر
سب کچھ ڈھوتے ہیں
کم یاب بھی ہیں نایاب بھی ہیں
سمجھو تو ظاہر ہوتے ہیں
” ہم شاعر ہوتے ہیں “
تنہا ، تنہا پھرتے رہنا
بُھول بھلیّاں میں
تارا ، تارا اپنی خواہش
ڈھونڈتے رہتے ہیں
حیرت کی سُونی گلیوں میں
چاند کو حسرت سے تکتے ہیں
جاگتے ، سوتے نیند سے باتیں کرتے ہیں
زہر بھری راتوں میں نظمیں کہتے ہیں
وقت کی ناوُک پر افسانے گھڑتے ہیں
بھُولا بِسرا ایک زمانہ بنتے ہیں
اپنی زات کا تانا بانا بُنتے ہیں
دریاؤں کو گیت سُناتے ہیں ہم لوگ
نامحرم قبروں پر نوحے پڑھتے ہیں
رونے کے بھی کیسے کیسے ہوتے ہیں ڈھنگ
اپنے ، اپنے ،،، ہوتے ہیں رنگ
جیسے ” تتلی “
بادِ مخالف اُڑتی ، پھرتی ہے
آوازیں کَستی ہے تپتے سورج پر
دھوپ بہت ہے ” پَر “ جلتے ہیں
غم کی بیلیں کاڑھتے ہیں ہم
فارغ وقتوں میں
بوسیدہ دیواروں میں دَر بنتے ہیں
دستک دیتے ہیں
ہر دستک پر ایک نیا دَر کُھلتا ہے
دیس دیس میں گھومتے ، پھرتے
گھاس ، کپاس میں
لفظوں کا اک ریوڑ ہانکتے ہیں ہم لوگ
صحرا میں خوش بُو کی صورت ہوتے ہیں
مصرعوں سے اجسام بناتے ہیں ہم لوگ
اور پھر اُن میں
اپنی سانسیں بھرتے ہیں !
یہ سب ہم نے میرؔ اور غالبؔ سے سیکھا ہے
پا کر سب کچھ کھوتے ہیں
ہم شاعر ہوتے ہیں …..!
( ســلیــم شہـــــــزاد )