(غیر مطبوعہ) جو سچّے اہلِ عشق تھے’ وہ شہر میں گم…
جو سچّے اہلِ عشق تھے’ وہ شہر میں گم نام تھے
اک داستانِ عشق میں ‘ عاشق برائے نام تھے
ادراک سے تھے ماور ‘ ,اظہار کی حد سے پرے
کچھ شعر۔۔۔ ایسے شعر تھے’ جو اصل میں الہام تھے
ہم سے یقینی منزلیں ‘ کچھ اس لیے بھی کھو گئیں
راہِ سفر آسان تھی ‘ دل میں مگر اوہام تھے
وہ شہر اب مدفون ہے’ زیرِ زمیں گہرا بہت
جس شہر کے سب لوگ ہی ظالم تھے ‘ خوں آشام تھے
سُرتال کی آواز پر’ قصّے نئے کہتے گئے
جو قافلے اِس شہر میں ‘ آئے بَہ وقت ِ شام تھے
جب میرؔ آدھی رات کو’ دل کھول کے روئے میاں!
تب عشق والے مست تھے’ باقی تو بے آرام تھے
جب حُسن بھی موجود تھا ‘ جب عشق بھی موجود تھا
تو مے کدے بھی عام تھے اور اہلِ دل بھی عام تھے
ان کی دعائیں بے اثر ‘ ان کی نمازیں رائگاں
جن کے دلوں میں شِرک تھا اور جسم پر احرام تھے
( اِســحـاقؔ وردگـــــ )