ایک بار حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ کہی جارہے تھ…
” یا سقطی کن مثلی اے سقطی میری طرح ہوجا ”
آپ بڑے حیران ہوے کہ درخت کیسے بول سکتا ہے آپ نے فرمایا ” کیف اکون مثلک میں تیری طرح کیسے بن سکتا ہوں ”
درخت نے کہا “ان الذین یرموننی بالا حجار فارمیھم بالا ثمار اے سری جو لوگ مجھ پہ پتھر پھینکتے ہیں میں انکی طرف اپنے پھل پھینکتا ہوں ”
آپ نے بات سنی تو سوچا کہ اگر یہ درخت اتنے ہی اچھے ہیں تو اللہ پاک نے انکی لکڑی کو دوزح کی غذا کیون بنایا ہے لہذا آپ نے پوچھا
” فکیف مصیرک الی النار اگر تو اتنا ہی اچھا ہے تو تم جہنم کی غذا کیوں ہو؟
درخت نے جب یہ سنا تو کہا اے سری مجھ میں ہزاروں اچھائی ہے لیکن مجھ میں ایک بھت بڑی برائی و خامی ہے جس نے میری تمام اچھائیوں پہ پانی پھیر دیا اللہ تعالی کو میری وہ خامی اتنی ناپسند ہے کہ مجھے جہنم کی غذا بنا دیا۔
میری خامی ہے کہ فاملیت بالھوا ھکذا جدھر ہوا کا رح ہوتا ہے میں اس طرف موڑ جاتی ہوں مجھ میں استقامت نہیں ہے ،
جبکہ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا جو لوگ ایمان لاے اور کہا کہ انکا رب اللہ ہے تو وہ اس بات پہ جم گئے۔
استقامت کی اسلام میں بے حد بڑا مقام ہے کئ کئ بار نبی کریم کو اللہ پاک نے بلکل کھل کر کہا کہ آپ جم جاے
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ
آپ ڈٹ جاے اس بات پہ جس کا آپکو اللہ نے حکم دیا ہے
اللہ ہم سب کو استقامت کی زندگی نصیب فرماے آمین