اب اِس پہ ایک نظر ناقدانہ چاہتا ہوں میں اپنا خواب …
میں اپنا خواب کسی کو دِکھانا چاہتا ہوں
تُو اپنی آگ ‘ مِری لَو سے متّصِل کردے
میں ایک شب کے لیے جگمگانا چاہتا ہوں
یہ بات ۔۔ تجھ کو بتانے لگا ہوں آخری بار
میں چاہتا ہوں تجھے، والہانہ چاہتا ہوں
میں اپنے آپ کو بالکل نہیں پســـند آیا
سو’ خود کو توڑ کے پھر سے بنانا چاہتا ہوں
ترے گریز کی عادت نہیں پڑی ہے ابھی
کبھی کبھـــار ترے پاس آنا چاہتا ہوں
میں خود سے دُور، ہہت دُور جا بسوں گا کہیں
یہ طے تو کر ہی چکا ہوں، بہانہ چاہتا ہوں
میں بجھ رہا ہوں ‘ جلا لو کوئی دیا مجھ سے
میں اپنی روشنی آگے بڑھانا چاہتا ہوں
برُون ِ زات ۔۔۔۔ کسی سے نہیں ہے خوف مجھے
میں اپنے آپ کو خود سے بچانا چاہتا ہوں
کہیں ہے کیا کوئی جاے پناہِ دل زدہ گاں !
میں اب سکون سے آنسو بہانا چاہتا ہوں
قرار پائے گا جب روحِ عصر میرا سخُن
میں اپنے ہوتے ہوئے’ وہ زمانہ چاہتا ہوں
بدن کا حق تو ادا کرچکا بہُت ‘ عــرفــانؔ !
بس اب تو روح کا کوئی ٹھکانا چاہتا ہوں
( عِـــرفـــانؔ ســــتّار )