( غیـــر مطبــوعــہ ) ایسی عجب ہَوا چلی ‘ میرے …
ایسی عجب ہَوا چلی ‘ میرے لبوں کو سی گئی
لب بستگی کے شور میں آنکھوں سے بات کی گئی
دشتِ فراقِ دوست میں ‘ کیسی غضب کی پیاس تھی
ساعت میں اک وصال کا’ دریا تمام پی گئی
کچھ گفتنی شنیدندنی ‘ باتیں بہت سی تھیں مگر
گوشِ حضور تک مِری ‘ عرضی جو اَن سُنی گئی
تم نے ڈبو دیا مجھے’ دریاےِ اضطراب میں
گر چہ قرار کی فقط ‘ تم سے ہی بوند لی گئی
بستر کی ہر شکن مِرے ماتھے پہ آگئی تھی جب
ساعت نشاطِ قرب کی’ ماتم میں کاٹ دی گئی
میں کون ‘ کیا ۔۔۔ کے دائرے میں جب الجھ گئی سَــحَـرؔ !
تو پھر مِرے شعور کی ‘ بازی لپیٹ دی گئی
( شـــائســـتہ سَــحَــرؔ )