ہم لوگ آؤ اُس یاد کو سِینے سے لگا کر سو جائیں آؤ …
آؤ اُس یاد کو سِینے سے لگا کر سو جائیں
آؤ سوچیں کہ بس اک ہم ہی نہیں تِیرہ نصِیب
اپنے ایسے کئی آشفتہ جِگر اَور بھی ہیں
ایک بے نام تھکن ، ایک پْر اسرار کَسک
دل پہ وُہ بوجھ کہ بْھولے سے بھی پْوچھے جو کوئی
آنکھ سے جلتی ہوئی رُوح کا لاوا بہہ جاۓ
چارہ سازی کے ہر انداز کا گہرا نِشتر
غم گُساری کی روایات میں اُلجھے ہُوۓ زخم
درد مندی کی خراشیں جو مٹاۓ نہ مِٹیں
اپنے ایسے کئی آشفتہ جِگر اَور بھی ہیں
لیکن اَے وقت وُہ صاحب نَظَراں کیسے ہیں
کوئی اُس دیس کا مِل جائے تو اِتنا پُوچھیں
آج کل اپنے مسِیحا نَفَساں کیسے ہیں
آندھیاں تو یہ سُنا ہے کہ اُدھر بھی آئیں
کونپلیں کیسی ہیں، شِیشوں کے مکاں کیسے ہیں؟
مصطفیٰ زیدی
[ad_2]