فنا ؔ بُلند شہری . میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر، …
.
میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر، جب نظر سے مِلائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مُسکرائی مزہ آگیا
چاند کے سائے میں اے مِرے ساقیا! تُو نے ایسی پِلائی مزا آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے
میکدے پربرسنے لگیں مستیاں، جب گھٹا گھِر کے چھائی مزا آ گیا
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے، اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ اُن کی لڑی یُوں مِری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا
شیخ صاحب کا اِیماں بہک ہی گیا، دیکھ کر حُسنِ ساقی پِگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرُور تھے، لُٹ گئی پارسائی مزا آ گیا
آنکھ میں تھی حیا ہر مُلاقات پر، سُرخ عارض ہُوئے وصل کی بات پر
اس نے شرما کے میرے سوالات پر، ایسے گردن جُھکائی مزا آ گیا
اے فناؔ ! شُکر ہے آج بعدِ فنا، اُس نے رکھ لی مِرے پیار کی آبرُو
اپنے ہاتھوں سے اُس نے مِری قبر پر، چادرِ گُل چڑھائی مزا آ گیا
فنا ؔ بُلند شہری
(حنیف محمد)
اُستاد قمر جلالوی سے شرفِ تلمّذ رہا اِنھیں