#hamidnaved کل دفتر سے نکلتے ہوئے لیٹ ہو گیا۔۔۔ …
کل دفتر سے نکلتے ہوئے لیٹ ہو گیا۔۔۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو افطاری میں بیس منٹ باقی تھے۔۔۔
روڈ سگنل جام ہوئے کوئی تین منٹ گزر چکے تھے۔۔۔جیسے ہی سگنل گرین ہوا۔۔۔ میں نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی۔۔۔ سردار کارخانہ روڈ سے جیسے ہی چونگی کی طرف گاڑی موڑی تو ایک زیر تعمیر عمارت کے سامنے کافی ہجوم دیکھا۔۔۔ گھڑی پر نگاہ دوڑائی تو روزہ افطار ہو چکا تھا۔۔۔
ابھی میں گھڑی کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ کار کا شیشہ بجا۔۔۔ کپڑوں پر جا بجا سیمنٹ کے داغ۔۔۔ چہرے پر مسکراہٹ ِ مطمئنہ۔۔۔ ہاتھ میں پکڑی ایک پلیٹ میں کھجور اور دوسرے ہاتھ میں شربت کا گلاس۔۔۔
دوسری بار گاڑی کا شیشہ بجنے پر میں عالم تفکرات سے واپس لوٹ آیا۔۔۔ اور شیشہ نیچے کیا ۔۔۔
دستک دینے والے نے سلام کیا اور کھجور کی پلیٹ میرے سامنے کرتے ہوئے کہا :لیں بابو جی روزہ افطار کر لیں۔۔۔
میں نے جیسے ہی ایک کھجور لی تو مستعدد مزدور نے فوراً شربت کا گلاس میرے ہاتھ میں تھما دیا۔۔۔
’’بابو جی آئیں ہمارے ساتھ بیٹھ کر تسلی سے افطاری کریں۔۔۔‘‘ مزدور نے ایک اور التجا کی۔۔۔ جب کہ میں مسلسل ہونقوں کی طرح اس کا مونہہ دیکھے جا رہا تھا۔۔۔
گاڑی سے نیچے اتر کر دیکھا کہ زیر تعمیر عمارت کے حال میں صفیں بچھی پڑی ہیں اور نہایت سلیقے سے غریب مزدور بیٹھے افطاری کر رہے ہیں۔۔۔
’’یقینا اس عمارت کے مالک نے یہ انتظام کیا ہوگا۔۔۔ مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ان مزدورں سے سارا کام لینے کی بجائے خود بھی اس با برکت کام میں شامل ہوتا۔۔۔ ‘‘ میں اسی سوچ میں غلطاں عمارت کے حال میں جا پہنچا کہ ایک بزرگ مزدور نے مجھے ایک طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا اور آواز لگائی ’’ادھر شربت اور افطاری کا سامان رکھو‘‘
میں نے اس بزرگ کو اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہا تو وہ بخوشی بیٹھ گئے۔۔۔
میں نے کہا : چچا جی یہ سارا انتظام کس نے کیا ہے؟؟
’’بیٹا یہ سارا خرچہ میرے مزدور بھائیوں نے اپنی حق حلال کی کمائی سے کیا ہے۔۔۔ اور ہر روز اپنی استطاعت کے مطابق کرتے ہیں۔۔۔ ہم چودہ آدمی اور دو ٹھیکیدار چار سالوں سے ایک ساتھ کام کرتے آ رہے ہیں۔۔۔ اور چار سالوں سے یہی ترتیب ہے۔۔۔ ‘‘بابا جی کے لہجے سے اطمنان اور خوشی واضح محسوس ہوتی تھی۔۔۔
’’بیٹا!!! ہمارے سارے مزدور ساتھی بڑے اچھے ہیں۔۔۔ رمضان میں ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے ہیں اور کام میں رعایت بھی دیتے ہیں۔۔۔ اور اگر کوئی گھریلو مسئلہ بھی ہو تو اس میں بھی مدد کرتے ہیں۔۔۔ دو ماہ پہلے اس(ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے) ضیاء محمد کی بیٹی کی شادی تھی، بارات کے پچیس آدمیوں کا کھانا خرچ آپس میں سب نے مل بانٹ کر اٹھایا۔۔۔ ‘‘ بابا جی نے مزید معلومات بہم پہنچائی۔۔۔
بابا جی کی باتیں سن کر میں نے خود کو احساس کمتری کا شکار پایا۔۔۔ کہ یار دن بھر کڑی دھوپ میں مزددری کرنے والے لوگ بھی اتنے فراخ دل ہوتے ہیں۔۔۔بے شک یہ مزدور نہیں بڑے شہنشاہ لوگ ہیں۔۔۔