( غیــر مطبــوعــہ ) ہم نے جلتے ہوئے خیموں کی وہ…
ہم نے جلتے ہوئے خیموں کی وہ شامیں رکھ دیں
شعر میں لفظ رکھے، لفظ میں چیخیں رکھ دیں !
میں نے بھی اُس کو دیا پہلی ملاقات میں دل
میرے دامن میں بھی اُس نے مِری غزلیں رکھ دیں
یوں لگا ۔۔۔۔ آنکھ بچانے پہ جھپکتی ہے پلک
اُسی تصویر پہ میں نے بھی نگاہیں رکھ دیں
روشنی کے ہر اک امکان پہ ڈالا پردا
ایک لڑکی نے مِری سوچ پہ زلفیں رکھ دیں
پھر اٹھا یاد کے آنگن سے اُداسی کا دُھواؑں
کس نے طاقوں میں جلا کر مِری شامیں رکھ دیں
عشق اِتنا تھا کہ محفوظ کہاں رکھتے ہم
اور ماں باپ نے بستے میں کتابیں رکھ دیں
پیش جب کرنے لگے سب ترے جلوؤں کوخراج
ہم نے بھی لا کے وہاں طشت میں آنکھیں رکھ دیں
( ناظِـــرؔ علیــگ )